میرے قلم پہ رہی نوک جس کے خنجر کی
سنا ہے اس کی زباں بھی ہوئی ہے پتھر کی
رواں ہے قلزمِ خوں اندرونِ شہر بھی سیکھ
کہ خوش نما تو بہت ہے فصیل باہر کی
اجاڑ پیڑ گئے موسموں کو روتے ہیں
ہر آبجو کو ہوس پی گئی سمندر کی
فقیہہِ شہر جبیں پر کلاہِ زر رکھے
سنا رہا ہے ہمیں آیتیں مقدر کی
خود اپنے خوں میں نہائے ہوئے مگر چپ ہیں
یہ لوگ ہیں کہ چٹانیں ہیں سرخ پتھر کی
وہ ایک شخص کہ سورج کے روپ میں آیا
چرا کے لے گیا شمعیں فراز ہر گھر کی
سنا ہے اس کی زباں بھی ہوئی ہے پتھر کی
رواں ہے قلزمِ خوں اندرونِ شہر بھی سیکھ
کہ خوش نما تو بہت ہے فصیل باہر کی
اجاڑ پیڑ گئے موسموں کو روتے ہیں
ہر آبجو کو ہوس پی گئی سمندر کی
فقیہہِ شہر جبیں پر کلاہِ زر رکھے
سنا رہا ہے ہمیں آیتیں مقدر کی
خود اپنے خوں میں نہائے ہوئے مگر چپ ہیں
یہ لوگ ہیں کہ چٹانیں ہیں سرخ پتھر کی
وہ ایک شخص کہ سورج کے روپ میں آیا
چرا کے لے گیا شمعیں فراز ہر گھر کی
No comments:
Post a Comment